منگل کی شب اسلام آباد کے ڈی چوک میں کیا ہوا؟

منگل کی شب اسلام آباد میں کیا ہوا ؟

جلا ہوا ٹرک، ٹوٹی پھوٹی مسافر اور پرائیوٹ گاڑیاں، سڑک پر جا بجا بکھرے گاڑیوں کے شیشے، زمین پر پڑے عمران خان کے پوسٹرز، آنسو گیس کے شیلز، چند جوتے اور کچرے کا ڈھیر۔۔۔

یہ مناظر بدھ کی صبح اسلام آباد کے ڈی چوک کے ہیں جو تین دن سے ملکی سیاست پر گونجتا رہا اور جہاں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے مطابق تحریک انصاف کے مظاہرین کو ’مطالبات پورے تک‘ دھرنا دینا تھا۔

مگر منگل کی شام کو یہ مقام ایک اور منظر پیش کر رہا تھا۔

جہاں پی ٹی آئی کے سینکڑوں پرجوش مظاہرین، عمران خان کی رہائی کے مطالبے کے نعرے، رانگ سائڈ سے داخل ہونے والا بشریٰ بی بی اور علی امین کا مرکزی کنٹینر اور اس سے کارکنوں کا جوش بڑھانے والے اونچی آواز میں چلتے گانے، کینٹینرز پر چڑھے اور رقص کرتے کارکن موجود تھے۔

26 نومبر کی شام تک پی ٹی آئی کے مظاہرین کی بہت بڑی تعداد اسلام آباد کے بلیو ایریا میں موجود تھی جنھیں یہ امید ہو چلی تھی کہ جس طرح راستے کی رکاوٹیں ہٹاتے ہوئے وہ اسلام آباد کے ریڈ زون میں پہنچے ہیں ویسے ہی اب حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات ماننے پر بھی مجبور ہو جائے گی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان جلد ہی رہا ہو جائیں گے۔

ان کارکنوں کے چہروں پر مارچ کی حتمی منزل ڈی چوک پہنچنے کی خوشی کے باعث تقریباً 72 گھنٹوں کی مسافت طے کرنے اور راستے میں متعدد مقامات پر سیکورٹی فورسز کے ساتھ مڈبھیڑ کی تھکاوٹ بھی نہیں تھی۔

مگر جیسے ہی شام کے سائے رات کے اندھیرے میں تبدیل ہوئے اور خنکی سردی میں تبدیل ہوئی ویسے ہی وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ کا رویہ بھی سرد اور سخت ہوتا گیا۔

انتظامیہ نے مظاہرین کے خلاف ’فیصلہ آپریشن‘ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔